- ہارون رشید
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں صحافی قتل، خوف و ہراس اور تشدد کی دوسری اقسام کے مستقل خطرے میں زندگی بسر کرتے ہیں
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں مقیم افغان صحافی حبیب الرّحمان تاثیر کو نامعلوم افراد کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیوں کے بعد ملک چھوڑنا پڑا ہے۔ وہ وائس آف جرمنی کی پشتو سروس سے منسلک تھے۔
ستمبر کے اوائل میں حبیب الرّحمان تاثیر کو ’ان نون یا انجان‘ نمبروں سے تین ٹیلیفون کالز موصول ہوئیں جن میں انھیں ایسی رپوٹیں نشر کرنے سے منع کیا گیا جو بقول کالرز کے ’ان کی پالیسیوں کے خلاف ہیں۔‘
حبیب الرّحمان تاثیر صحافی ہونے کے علاوہ پشتو کے شاعر اور ادیب بھی ہیں۔
کوئٹہ میں گذشتہ سات برسوں سے صحافت کے پیشے سے منسلک حبیب الرّحمان تاثیر جرمنی کے نشریاتی ادارے کے لیے پچھلے چار سالوں سے کام کر رہے ہیں۔
ملک چھوڑنے سے قبل اپنے ساتھیوں کو اپنے صوتی پیغام میں انھوں نے کہا کہ وہ کوئٹہ کو اپنی حفاظت کے نقطۂ نظر سے نہیں بلکہ اپنے خاندان خصوصاً بچوں کی وجہ سے چھوڑ رہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ٹیلیفون کالز میں ’مجھے میرے آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم بیٹے اور پہلی کلاس میں زیِر تعلیم بیٹی کے نہ صرف نام بلکہ سکولوں کے پتے بھی بتائے گئے۔ میں نے اپنی خاطر نہیں، بچوں کے خوف سے کوئٹہ کو خیرباد کہا ہے۔‘
ان سے پوچھا گیا کہ انھیں دھمکیاں کیوں دی جا رہی تھیں تو حبیب الرّحمان تاثیر نے اس بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا۔
|ن کا کہنا تھا کہ ’اس خطے میں درجنوں صحافی قتل کیے جا چکے ہیں۔ ان کا جرم بھی آج تک واضح نہیں ہو سکا ہے۔ مجھے نہیں معلوم میرا کیا مسئلہ ہے۔ تاہم انھوں نے یہ کہا کہ چونکہ آپ ڈی ڈبلیو کے لیے کام کرتے ہو اس لیے ہم آپ کے خلاف ہیں۔ آپ کا ریڈیو متنازع ہے اور آپ کی رپورٹیں ہماری پالیسی کے خلاف ہیں۔‘
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان میں صحافی قتل، خوف و ہراس اور تشدد کی دوسری اقسام کے مستقل خطرے میں زندگی بسر کرتے ہیں۔
کوئٹہ میں نجی خبر رساں ایجنسی آن لائن کے دفاتر پر حملے میں گذشتہ دنوں دو صحافیوں سمیت تین افراد ہلاک کر دیے گئے تھے۔ ان میں بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے جنرل سیکریٹری ارشاد مستوئی بھی شامل تھے۔
حبیب الرّحمان کا کہنا تھا کہ نامعلوم افراد نے پریس کلب بھی فون کر کے صحافیوں سے کہا کہ وہ متنازع ہیں۔
میڈیا اور صحافیوں کے تحفظ اور حقوق کے لیے کام کرنے والی پاکستانی تنظیم فریڈم نیٹ ورک نے ایک بیان میں ان دھمکیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے ان کالز کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
No comment