- ایم الیاس خان
- بی بی سی نیوز، اسلام آباد
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک تنظیم جو حملے سے محض نو دن پہلے وجود میں آئی کیا اتنا بڑا حملہ کرسکتی ہے؟
گذشتہ چند ماہ میں پاکستانی شدت پسندوں کے حالات اور وفاداریاں تیزی سے بدلی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل فوجی آپریشن کے باعث پاکستانی شدت پسندوں کو محفوظ ٹھکانوں سے نکالا گیا اور ان جنگجوؤں میں دراڑیں پڑ گئی تھیں۔
لیکن پھر القاعدہ کے جنوبی ایشیا میں شاخ کھولنے کے بارے میں بیان نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ شدت پسند اب بھی خطرہ ہیں۔
شدت پسندوں کی جانب سے 13 ستمبر کو پاکستان کے شہر کراچی میں واقع نیول ڈاک یارڈ پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ شدت پسند اب بھی حساس علاقوں کو ہدف بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اپنی ویب سائٹ پر جاری ایک بیان میں القاعدہ نے کہا ہے کہ یہ حملہ حال ہی میں قائم کی گئی جنوبی ایشیا کی شاخ نے کیا اور اس کا مقصد پاکستانی جنگی جہاز پر قبضہ کرنا تھا تاکہ قریبی سمندری حدود میں موجود امریکی بحریہ کے جہازوں کو نشانہ بنایا جا سکے۔
تاہم بہت کم ہی لوگ اس دعوے پر کان دھریں گے کیونکہ ایک تو پہلے بھی پاکستانی سکیورٹی فورسز اس قسم کے حملوں کو ناکام بنا چکی ہیں اور دوسرے یہ کہ جنوبی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن ضربِ عضب میں میران شاہ میں شدت پسندوں کا کمانڈ سینٹر تباہ کر دیا گیا ہے۔
القاعدہ اور حکومت دونوں کا کہنا ہے کہ نیول ڈاک یارڈ پر حملے میں کچھ لوگ اندر سے ملے ہوئے تھے اور اسی وجہ سے یہ بات ایک بار پھر منظرِ عام پر آئی ہے کہ جہادی تنظیموں کو کس حد تک حساس علاقوں میں اندر سے مدد مل جاتی ہے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک تنظیم جو حملے سے محض نو دن پہلے وجود میں آئی، کیا اتنا بڑا حملہ کرسکتی ہے؟
ایسا ہونا ممکن نہیں لگتا بشرطیکہ پاکستانی فوج کی ماضی میں شدت پسندوں کی جانب مبینہ ’سافٹ‘ پالیسی اور دو دہائی سے القاعدہ کے مقامی روابط کو مدِ نظر رکھیں۔
القاعدہ اور حکومت دونوں کا کہنا ہے کہ نیول ڈاک یارڈ پر حملے میں اندر سے مدد ملی تھی
سنہ 1980 کی دہائی میں افغان جنگ کے دوران پاکستانی فوج کے نچلے اور درمیانے درجے کے فوجی اسلامی بنیاد پرستی کی جانب مائل ہوئے۔ فوج نے اس عرصے کے دوران اپنا نعرہ بھی جہاد رکھ لیا اور اس کی صفوں میں افغان جہاد اور جہادیوں کے لیے حمایت بڑھ گئی۔ اور اسی وجہ سے ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد امریکہ مخالف جذبات میں بھی اضافہ ہوا۔
افغان جہاد کے دوران اور اس کے بعد 2003-1989 کے دوران بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ’جہاد‘ کے دوران آئی ایس آئی پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے جہادیوں کو مسلح کیا، تربیت دی اور کارروائیوں میں معاونت کی۔
ان شدت پسند گروہوں میں سے مالی طور پر سب سے زیادہ مستحکم تنظیم القاعدہ نکلی۔
عاصم عمر جنوبی ایشیا کی شاخ کے سربراہ مقرر ہوئے ہیں۔ انھوں نے 2000 کی دہائی میں شمالی وزیرستان منتقل ہو کر وہاں اپنی تنظیم قائم کی اور اس عرصے میں القاعدہ کے رہنماؤں کے ساتھ کام کیا۔
اس سے قبل وہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں لڑنے والی تنظیموں حرکت المجاہدین اور جیش محمد کے ساتھ منسلک تھے۔ اس لیے نہ تو القاعدہ کی جنوبی ایشیا کی شاخ اور نہ ہی اس کے رہنما اس خطے کے لیے نئے ہیں۔
ان شدت پسند گروہوں میں سے مالی طور پر سب سے زیادہ مستحکم تنظیم القاعدہ نکلی
شمالی وزیرستان میں ضربِ عضب نامی فوجی آپریشن کے آغاز کے بعد سے ملک میں حملے تقریباً ختم ہی ہو گئے تھے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ شدت پسندوں کے نیٹ ورک کو نقصان پہنچا ہے۔
لیکن حالیہ دنوں میں دوبارہ حملے شروع ہو گئے ہیں جو اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ شدت پسند دوبارہ منظم ہو رہے ہیں۔
یقیناً شدت پسند گروہوں کی پوری کوشش ہے کہ وہ منظم رہیں۔ دوسری جانب القاعدہ کی جانب سے جنوبی ایشیا کی شاخ کھولنے کے اعلان سے اس نے دولتِ اسلامیہ کو واضح پیغام بھیجا ہے کہ القاعدہ کا ابھی بھی جنوبی ایشیا پر کنٹرول ہے۔
دریں اثنا اس خطے میں وسطی ایشیا، شمال مغربی چین، مشرق وسطیٰ میں شدت پسندوں کی موجودگی ہے اور روایتی طور پر ان گروہوں کا جھکاؤ القاعدہ اور اس کے اتحادی طالبان کی جانب رہا ہے۔
القاعدہ کی جنوبی ایشیا کی شاخ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ ان گروہوں کو ملا کر اس خطے میں اپنی پوزیشن مستحکم کر رہے ہیں۔
No comment