برطانیہ کے تولیدی صحت کے ادارے نے تصدیق کی ہے کہ ملک میں پہلی بار تین افراد کے ڈی این اے کا استعمال کرتے ہوئے ایک بچے کی پیدائش ہوئی ہے۔
اس بچے کی تولید کے لیے زیادہ تر ڈی این اے ان کے دو والدین سے لیا گیا ہے جبکہ تقریباً 0.1 فیصد تیسری ڈی این اے عطیہ کرنے والی عورت سے لیا گیا ہے۔
اس شاندار تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے بچوں کی پیدائش کو ممکن بنانے کا مقصد بچوں کو تباہ کن مائٹوکونڈریل امراض سے محفوظ رکھنے کی ایک کوشش ہے۔
اس تکینک کے ذریعے دنیا میں اب تک پانچ بچے پیدا ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اس حوالے سے کوئی تفصیلات نہیں دی گئی ہیں۔
مائٹوکونڈریل بیماریاں لاعلاج ہوتی ہیں اور پیدائش کے بعد گھنٹوں یا دنوں میں جان لیوا ہو سکتی ہیں۔
کچھ خاندانوں نے اس بیماری کے باعث ایک سے زیادہ بچوں کو کھو دیا ہے اور اس تکنیک کو ان کے لیے ایک صحت مند بچہ پیدا کرنے کا واحد آپشن سمجھا جاتا ہے۔
مائٹوکونڈریا جسم کے تقریباً ہر خلیے کے اندر موجود چھوٹے چھوٹے حصے ہوتے ہیں جو کھانے کو قابل استعمال توانائی میں تبدیل کرتے ہیں۔ انھیں خلیے کا ’پاور ہاؤس‘ بھی کہا جاتا ہے۔
خراب مائٹوکونڈریا جسم کو توانائی فراہم کرنے میں ناکام رہتا ہے اور دماغ کو نقصان پہنچانے، پٹھوں کی کمزوری، دل کی خرابی اور اندھے پن کا باعث بنتا ہے۔
یہ بیماری صرف ماں سے ہی بچے کو منتقل ہو سکتی ہے۔ لہذا یہ علاج ایک طرح سے آئی وی ایف کی جدید قسم ہے جس میں کسی صحت مند شخص سے مائٹو کونڈریا حاصل کرتا ہے۔
مائٹو کونڈریل عطیہ کرنے کی دو تکنیکیں یا طریقہ کار ہیں۔ ایک ماں کے انڈے کو باپ کے نطفہ سے فرٹیلائز کرنے کے بعد ہوتا ہے اور دوسرا فرٹیلائزیشن سے پہلے ہوتا ہے۔
تاہم، مائٹوکونڈریا میں اپنی جینیاتی معلومات یا ڈی این اے ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تکنیکی طور پر اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے اپنے والدین سے اور عطیہ دہندہ کی طرف سے بھی ڈی این اے وراثت میں لیتے ہیں۔ یہ ایک مستقل تبدیلی ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہے گی۔
No comment