اسلام آباد: سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے بھی ملٹری کورٹس کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے وکیل عزیر چغتائی کے توسط سے دائر درخواست میں موقف اختیار کیا کہ اس مقدمے میں درخواست گزار کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں اور نہ ہی کسی جماعت یا 9 مئی کے حملے کو سپورٹ کرنا ہے، درخواست گزار کا مقصد کسی سیاسی وابستگی کے بغیر عام شہریوں کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ درخواست گزار ملزمان کے کسی فعل کی حمایت نہیں کرتا، عام شہریوں کے خلاف کیس چلانے کا فورم کریمنل کورٹس ہیں، کورٹ مارشل کی کارروائی صرف مسلح افواج کے اہلکاروں کے خلاف کی جا سکتی ہے، کورٹ مارشل کا مقصد افواج میں نظم و ضبط کو برقرار رکھنا ہوتا ہے، سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل اسی صورت میں ہو سکتا ہے اگر وہ حاضر سروس ملازم ہوں۔
درخواست گزار کے مطابق بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا آئین پاکستان کے تحت سویلین کا کورٹ مارشل کیا جا سکتا ہے، اس کیس کے فیصلے کا فوری طور پر بنیادی حقوق پر براہِ راست اثر پڑے گا، حکومت اور فوج نے واضح کیا ہے کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کا ملٹری کورٹس میں مقدمہ چلایا جائے گا۔
درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ کوئی جرم سرزد ہونے کی صورت میں ہر شہری کو شفاف ٹرائل کا حق حاصل ہے، کورٹ مارشل کی صورت میں آئین میں دیے گئے اس بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوگی، شفاف ٹرائل اسی صورت ممکن ہوگا جب مقدمے کی کھلی سماعت ہو اور ملزمان کو اپنی مرضی کا وکیل کرنے کی اجازت ہو۔
درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 2(1)(d)(i) اور (ii) آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں جنہیں کالعدم قرار دیا جائے، ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے لیے حوالے کیے گئے افراد کو کہاں رکھا گیا ہے اس کا ڈیٹا طلب کیا جائے، ملٹری کورٹس میں عام شہریوں کے ٹرائل کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔
درخواست گزار نے کہا کہ عدالت ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے لیے بھیجے جانے والے ملزمان کو فوجداری عدالتوں میں ٹرائل کے لیے سول اتھارٹیز کے حوالے کرنے کا حکم جاری کرے، ملٹری کورٹس کی تمام کاروائی روکنے اور کوئی بھی حتمی فیصلہ جاری کرنے سے روکنے کا حکم دیا جائے۔
سابق چیف جسٹس نے درخواست میں وزارت قانون، وزارت دفاع سمیت پنجاب، خیبرپختونخوا، سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومتیں کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔
No comment