- ریاض سہیل
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کندھ کوٹ
عمرکوٹ کی طرح کندھ کوٹ میں بھی کاروبار پر ہندو کمیونٹی اکثریت میں ہے
صوبہ سندھ کے علاقے کندھ کوٹ سے تقریباً 15 کلومیٹر دور واقع ٹوڑھی بند سے اس وقت سیلابی پانی ٹکرا رہا ہے جس کی وجہ سے کچے کے کئی دیہات کا زمینی رابطہ منقطع ہوگیا ہے اور اب یہ رابطہ صرف کشتی کے ذریعے بحال ہے۔
2010 کے سیلاب میں ٹوڑھی کے مقام پر حفاظتی بند میں شگاف پڑنے کے باعث بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے تھے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کشمور سے سکھر تک آٹھ لاکھ سے زائد لوگ بستے ہیں، لیکن یہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا نام و نشان نہیں۔ ٹوڑھی بند کے علاقے میں بھی عام دنوں میں لوگ پک اپ پر سفر کرتے ہیں جس کا کرایہ 50 روپے وصول کیا جاتا ہے۔
کشتی پر قریبی گاؤں سے حفاظتی بند تک لانے کا کرایہ فی فرد 50 روپے ہے۔ اگر اس کے ساتھ موٹر سائیکل ہے تو 50 روپے اضافی اور اگر دودھ کے ڈبے ہیں تو 30 روپے اضافی فی ڈبہ کرایہ ادا کیا جاتا ہے۔
ٹوڑھی بند کے آس پاس چاچڑ، سبزوئی اور دیگر برادریاں آْباد ہیں جن کی اکثریت جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن کی حمایتی ہے۔ ان کے بارے میں یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اگر امیدوار دستبردار بھی ہو جائے تو بھی وہ ووٹ کتاب ہی کو دیتے ہیں۔
کچے کے علاقے ویسے ہی ڈاکوؤں کے حوالے سے مشہور ہیں۔ ہمیں بھی مشورہ دیا گیا کہ سورج غروب ہونے سے پہلے کندھ کوٹ واپس چلا جانا چاہیے۔ لیکن شہر بھی تو کہاں محفوظ ہیں۔ شکارپور سے لے کر کشمور تک یا جیکب آباد تک کوئی بھی دوست عزیز شام کو سفر کی مخالفت کرتا ہے لیکن لوگ مجبوری میں سفر کرتے ہیں۔
کشمور سے سکھر تک سرکاری اعداد و شمار کے مطابق آٹھ لاکھ سے زائد لوگ بستے ہیں۔ لیکن یہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی نام و نشان نہیں۔
کندھ کوٹ شہر بنیادی طور چاولوں کی منڈی اور دیگر اشیائے ضرورت کی مارکیٹ ہے۔ کچے کے لوگ ان کے خریدار ہیں۔ عمرکوٹ کی طرح کندھ کوٹ میں بھی کاروبار پر ہندو برادری اکثریت میں ہے۔ شہر کے پرانے علاقوں میں ان کے گھر اور دکانیں ساتھ ساتھ ہیں۔ بازار کے ہر چوک پر ایک پولیس اہلکار ہندو کمیونٹی کے لوگوں کے تحفظ کے لیے تعینات ہے۔
شہر میں کئی ایسے لوگ نظر آتے ہیں جن کے کندھوں پر ڈبل بیرل بندوقیں لٹکی ہوئی ہوتی ہیں۔ ہم جیسے اجنبیوں کے لیے یہ باعث حیرت ہے لیکن یہاں کے لوگ جانتے ہیں کہ ان لوگوں کی قبائلی دشمنیاں ہیں۔ ایسے چند نہیں بلکہ درجنوں لوگ شہر میں گھومتے نظر آتے ہیں۔
سیلاب کے بعد اجڑے ہوئے حفاظتی بندوں پر کچھ مرمت کی گئی لیکن کندھ کوٹ کی ٹوٹی ہوئی سڑکیں، مٹی دھول اور گندگی اس کے ضلعی ہیڈکوارٹر ہونے کی تردید کرتی ہے۔ بلدیاتی نظام کے خاتمے کے بعد جیسے یہاں ترقی کو بھی بریک لگ گیا ہے۔
قبائلی سرداروں کی سیاست اور آپس میں چپقلش اس شہر کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ سیلابی ریلے کی وجہ سے حکمرانوں کی نظر میں کسی حد تک حفاظتی بند تو آ جاتے ہیں لیکن عدم توجہی کے باعث تعلیم، صحت اور شہری سہولیات کا فقدان اس شہر کے سدا بہار مسائل ہیں۔
سیلاب کا پانی ماہی گیروں کی زندگی میں خوش خبری لاتا ہے اور ان کے جال مچھلیوں سے بھرنے لگتے ہیں اسی طرح سیلاب کچے کے لوگوں کے لیے ’بمپر کراپ‘ کی نوید لے کر آتا ہے۔ اس پیداوار سے پورے علاقے کی معیشت میں بہتری آتی ہے۔
سیلاب کا پانی جیسے ماہی گیروں کی زندگی میں خوشخبری لاتا ہے اور ان کے جال مچھلیوں سے بھرنے لگتے ہیں
No comment