- اسد علی
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن
ٹی وی چینلوں پر عمران خان اور طاہر القادری چھائے ہوئے ہیں
عمران خان، ڈاکٹر طاہر القادری اور شیخ رشید کی اور کوئی شکایت جائز ہو نہ ہو لیکن آج کے پاکستان میں کم سے کم وہ اور ان کے ہم خیال دانشور، صحافی، اینکر پرسن اور دیگر حلقے یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہیں ملک کے لوگوں کے سامنے اپنی بات رکھنے اور انھیں قائل کرنے کا موقع نہیں ملا۔
یکم نومبر 2013 سے 12 اگست 2014 تک پاکستانی ٹی وی چینلوں پر سینکڑوں خصوصی انٹرویو ہوئے اور ان میں پاکستان تحریک انصاف، پاکستانی عوامی تحریک اور عوامی مسلم لیگ کے رہنما ہی چھائے ہوئے نظر آتے ہیں۔
12 اگست کے بعد تو جب ان رہنماؤں کا لاہور سے شروع ہونے والا مارچ اسلام آباد پہنچا ملک کے تقریباً تمام چینلوں کی توجہ مسلسل انہی رہنماؤں کی تقاریر پر تھی۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے دن میں ایک سے زیادہ بار اپنے حامیوں سے خطاب کیے جو سبھی چینلوں پر براہ راست نشر ہوئے۔
لانگ مارچ سے پہلے دس ماہ کی مدت میں پاکستان عوامی لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کے مختلف نِجی ٹی وی چینلوں پر تقریباً 170 انٹرویو ہوئے۔ دوسرے نمبر پر عمران خان ہیں جنھیں تقریباً 75 بار انٹرویو کے لیے بلایا گیا اور پھر طاہر القادری کا نمبر آتا ہے جن کے تقریباً 60 انٹرویو کیے گئے۔
گویا ان تین رہنماؤں کے کل انٹرویوز کی تعداد 300 سے بھی زیادہ بنتی ہے جبکہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے تمام رہنماؤں کے ساتھ کیے گئے خصوصی انٹرویوز کی کل تعداد ایک سو سے بھی کم ہے۔ اس میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ اور پنجاب کے وزیر اعلیٰٰ شہباز شریف کے چند خصوصی انٹرویو بھی شامل ہیں۔
پیپلزپارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، جماعتِ اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں یا نمائندوں کے خصوصی انٹرویو کی کل تعداد بھی لگ بھگ ایک سو ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ کم سے کم میڈیا نے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کو قومی اسمبلی کی ایک نشست کے ساتھ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں پر بھاری کر دیا۔
اس گنتی میں ان رہنماؤں کے جلسوں اور پریس کانفرنسوں سے خطاب شامل نہیں جن کی الگ سے خصوصی کوریج کی گئی۔ اس جائزے میں وہ انٹرویو شامل ہیں جو نِجی ٹی وی چینلوں نے اپنے ٹاک شوز میں کیے۔ ان میں اے آر وائی، وقت، سماء، دنیا، کیپیٹل ٹی وی، نیوز ون، ایکسپریس، جاگ ٹی وی، ڈان، اب تک نیوز اور دیگر ٹی وی چینلوں کے ٹاک شو شامل ہیں۔ عمران خان ابتدا میں جیو کے پروگراموں میں آتے رہے لیکن حالیہ ہفتوں میں انھوں نے کئی بار اسے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
جن انٹرویوز کا ذکر کیا جا رہا ہے ان کا اوسط وقت اشتہارات کو نکال کر 35 سے 45 منٹ ہے۔ ان میں ان رہنماؤں کو اپنا موقف بیان کرنے کا بھرپور موقع دیا گیا اور حکومت اور پاکستان کے موجودہ سیاسی نظام کے مخالف تینوں رہنماؤں نے اس موقعے کو صرف حکومت اور نظام کے خاتمے میں عوام کی مدد طلب کرنے میں استعمال کیا۔ انھوں نے کھُل کر حکمرانوں اور دیگر سیاست دانوں پر الزامات لگائے اور ان سے پوچھے گئے زیادہ تر سوالات وضاحتی نوعیت کے تھے۔
یکم نومبر 2013 کو عمران خان کا ٹی وی چینل سی این بی سی پر پروگرام ’لائیو وِد مجاہد‘ میں خصوصی انٹرویو کیا گیا اور ان کی طرف سے تحریک چلانے کے اعلان کے بارے میں سوال ہوا۔ عمران خان کا جواب تھا کہ وہ سب کو سڑکوں پر نکالیں گے اور یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج ہوگا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس میں ایک سال لگ سکتا ہے تو ان کا جواب تھا کہ ’شاید اتنی دیر نہ لگے۔‘
یکم نومبر کو ہی شیخ رشید کا ٹی وی چینل ایکسپریس کے پروگرام تکرار میں ایک انٹرویو ہوا جس میں انھوں نے کہا کہ ’میں قوم کو ذہنی طور پر تیار کر رہا ہوں، مرنے اور مارنے کے لیے تیار ہو جاؤ، اس ملک کو بچانا ہے۔۔۔‘
اس عرصے میں پاکستان عوامی تحریک کے رہنماء ڈاکٹر طاہرالقادری نے تو کچھ ایسے پروگرام بھی کیے جن کا عنوان تھا ’انقلاب کے بعد کا پاکستان کیسا ہوگا۔‘
یہ سلسلہ خاص طور پر رمضان کے مہینے کے آخری عشرے میں شروع کیا گیا تھا۔
المختصر ایک سال تک پاکستانیوں نے ٹی وی پر زیادہ تر وقت حکومت کے خلاف، جمہوریت کے خلاف ’موجودہ سیاسی نظام‘ کے خلاف باتیں سنیں، دلائل سنے۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ محض اتفاق تھا کہ تقریباً تمام ٹی وی چینل ان تینوں رہنماؤں کو اتنا وقت دینے پر متفق نظر آئے یا اس کے پیچھے کوئی سوچ کارفرما تھی؟
اور یہ بھی ایک بحث طلب معاملہ ہے کہ کیا اس کی وجہ سے لوگوں کا حکومت اور موجودہ نظام پر اعتماد کم ہوا ہے۔
No comment