پشاور میں سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنائے جانے کا سلسلہ جاری ہے
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں ہونے والے ایک خودکش دھماکے میں فرنٹیئر کور کے اہلکار سمیت چار افراد ہلاک اور 13 زخمی ہوگئے ہیں۔
پشاور کی مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ یہ دھماکہ منگل کی صبح صدر روڈ پر پشاور پریس کلب اور ریلوے سٹیشن کے قریب ہوا۔
دوسری جانب کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان درہ آدم خیل اور پشاور گروپ نے پشاور میں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
پولیس کے سی سی پی او اعجاز خان کے مطابق دھماکے کا ہدف پاکستانی فوج کی فرنٹیئر کور کے بریگیڈیئر خالد جاوید کی گاڑی تھی جو دھماکے کے وقت جائے وقوعہ سے گزر رہی تھی۔
اعجاز خان نے متاثرہ علاقے کے دورے کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دھماکہ ایک آلٹو کار میں ہوا جو کہ فوجی قافلے کے انتہائی قریب کھڑی تھی۔
پشاور کے ضلعی پولیس افسر نے کہا ہے کہ دھماکے میں بریگیڈیئر خالد محفوظ رہے لیکن ایف سی کا ایک اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہوئے ہیں۔
سی سی پی او کے مطابق دیگر ہلاک شدگان میں ایک عورت اور ایک راہگیر شامل ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد 13 ہے جنھیں سی ایم ایچ اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
صوبائی وزیر مشتاق غنی نے بی بی سی اردو کے رفعت اللہ اورکزئی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک خودکش حملہ تھا اور حملہ آور گاڑی میں ہی موجود تھا۔
بم ڈسپوزل حکام کا کہنا ہے کہ دھماکے میں 45 کلو کے قریب دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا اور دھماکے کے نتیجے میں حملہ آور کی گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوگئی۔
دھماکے سے فرنٹیئر کور کے افسر کی گاڑی کو جزوی نقصان پہنچا تاہم ان کے قافلے میں شامل ایک گاڑی اور رکشہ بری طرح متاثر ہوا۔
دھماکے کے فوراً بعد متاثرہ علاقے کو فرنٹیئر کور کے جوانوں نے گھیرے میں لے لیا اور شواہد جمع کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا۔
اعجاز خان کا کہنا تھا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضربِ عضب کا ردعمل شروع ہوگیا ہے اور اسی تناظر میں شہر کے داخلی و خارجی راستوں پر سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔
خیبر پختونخوا میں اس سال اب تک دہشت گردی کے بڑے واقعات تو کم ہوئے ہیں لیکن سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنائے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔
طالبان کا دعویٰ
کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان درہ آدم خیل اور پشاور گروپ نے پشاور میں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
درہ آدم خیل اور پشاور گروپ کے طالبان امیر خلیفہ عمر منصور نے بی بی سی کو کسی نامعلوم مقام سے ٹیلی فون پر بتایا کہ یہ حملہ ان کے تین کمانڈروں کے قتل کے انتقام میں کیا گیا ہے جو ان کے بقول گزشتہ ماہ خیبر ایجنسی میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے ہلاک کیے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ مرنے والوں کمانڈروں میں ایف آر پشاور کے کمانڈر جنگریز، ادیزئی کے کمانڈر شاہد اللہ اور بڈھ بیر اور سلیمان خیل کے کمانڈر عمر شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہلاک کیے جانے والے کمانڈروں کے بدلے میں مزید انتقامی کارروائیاں کی جائیں گی۔
خیال رہے کہ کمانڈر جنگریز پشاور اور آس پاس کے علاقوں میں طالبان کے ایک اہم سینیئر کمانڈر کے طورپر جانے جاتے تھے۔ ان پر پشاور میں پولیس افسران پر ہونے والے حملوں کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ اس سے ایک مرتبہ پہلے بھی کمانڈر جنگریز کی ہلاکت کی افواہیں پھیلی تھیں تاہم طالبان نے بعد میں اس کی تردید کردی تھی۔
No comment