- عنبر شمسی
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
’میں نے ڈی جے کے طور پر 2003 میں کام شروع کیا اور بہت چھوٹے لیول پر کام شروع کیا۔ زیرو سے شروع کیا۔ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ 2008 تک میں چین، ہانگ کانگ اور تھائی لینڈ سے سازوسامان درآمد کرنے لگا‘
آصف بٹ، جو ڈی جے بٹ کے نام سے جانے جاتے ہیں، کی اصل وجہ مقبولیت پاکستان تحریکِ انصاف ہے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ اسی جماعت کی وجہ سے وہ پہلے پاکستان میں مشہور ہوئے اور پھر دنیا بھر میں۔
آصف بٹ، گلے میں سنہرے حروف میں ’ڈی جے بٹ‘ لکھی ہوئی چین پہنے، پہلے تو معذرت کی کہ ’میرا رنگ ایسا نہیں ہے، گورا ہے۔ بس کھانا پینا اور نیند کی کمی کی وجہ سے ایسا ہو گیا ہوں۔‘ آخر گذشتہ ایک ماہ سے زیادہ انھوں نے پاکستان تحریکِ انصاف کے دھرنے میں دن رات کام کیا ہے۔
وہ ہمیں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے کنٹینر کے سامنے لے کر گئے اور کہا ’میں سامنے کم ہی آتا ہوں‘۔ ہم جب گزر رہے تھے تو لوگوں نے کہا ’وہ دیکھو ڈی جے بٹ جا رہا ہے‘۔
کنٹینر کے سامنے ہمیں انٹرویو کرنا تھا مگر خواتین کی بڑی تعداد ان کے پاس حال چال پوچھنے آئیں اور ان کے ساتھ اپنے موبائل فون اور آئی پیڈ سے تصاویر کھینچنے لگیں۔ ایسا ظاہر ہو رہا تھا کہ ڈی جے بٹ بھی اپنی مقبولیت کے مزے لے رہے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک غریب شخص ہیں جنہوں نے محنت سے اپنے آپ کو بنایا۔ ’میں نے ڈی جے کے طور پر 2003 میں کام شروع کیا اور بہت چھوٹے لیول پر کام شروع کیا۔ زیرو سے شروع کیا۔ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ 2008 تک میں چین، ہانگ کانگ اور تھائی لینڈ سے سازوسامان درآمد کرنے لگا۔‘
اگرچہ وہ لاہور میں مشہور تھے، اصل شہرت کی شروعات تو 2011 میں ہوئی۔ ’میرے پہلی بار خان صاحب سے ملاقات ہوئی اور طے ہوا کہ میں اپریل میں ان کے پشاور کے جلسے میں موسیقی اور ساؤنڈ سسٹم کا کام سنبھالوں گا۔ انھوں نے ڈرون کے بارے میں بات کرنی تھی اور میں نے موقع کی مناسبت سے نصرت فتح علی صاحب کی آلاپ کا انتخاب کیا۔ یقین کریں جب خان صاحب بول رہے تھے اور یہ آلاپ پیچھے چلی تو لوگ رونے لگے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اب ان کے اور عمران خان ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح سمجھنے لگے ہیں۔”اس سے پہلے میں کانسرٹ یا جلسے کے شرکا کا موڈ جانچتا تھا۔ لیکن پھر میں خان صاحب کو سمجھنے لگا‘۔
گذشتہ ہفتے ڈی جے بٹ کو دیگر پی ٹی آئی کے کارکنان کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔ جب اپنی گرفتاری کے بارے میں بات کرتے ہیں تو غصہ آجاتا ہے۔ ’میں ساؤنڈ انجینیئر ہوں، رزق حلال کماتا ہوں۔ میں کسی بھی کمپنی یا جماعت کے لیے کام کروں تو کیا یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ رات کو اٹھایا جائے اور گمنام جگہ پر لے کر جایا جائے؟‘
انھوں نے بتایا کہ انہیں گرفتار کے پانچ روز بعد ہی اپنے فون اور سامان واپس ملے۔
جب میں نے پوچھا کہ آپ کے تو وزیرِ اعظم نواز شریف کے خاندان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، ان سے مدد نہیں لی؟ سیدھا جواب تو نہیں دیا، لیکن یہ ضرور بتایا کہ انھوں نے شریف خاندان کے پانچ گھرانوں سے اچھے تعلقات ہیں اور ان کے کئی فنکشنز میں ڈی جے کے طور پر کام کیا ہے، اور انہی کی بدولت لاہور کے ماڈل ٹاؤن علاقے کی ایک مارکیٹ کے صدر منتخب ہوئے۔
ان سے یہ بھی پوچھا کہ اس دھرنے کے لیے ان کو کیا معاوضہ ملتا ہے تو ڈی جے بٹ نے مسکرا کر کہا کہ ’آپ میری روزی پر لات مارنا چاہتی ہیں۔ دیکھیں پی ٹی آئی نے مجھے مقبولیت اور محبت دی۔ میں ان کا جتنا شکریہ ادا کروں کم ہے، بلکہ مجھے اپنی جیب سے انہیں پیسے دینے چاہیئیں۔‘
’شریف خاندان کے پانچ گھرانوں سے اچھے تعلقات ہیں اور ان کے کئی فنکشنز میں ڈی جے کے طور پر کام کیا ہے، اور انہی کی بدولت لاہور کے ماڈل ٹاؤن علاقے کی ایک مارکیٹ کے صدر منتخب ہوئے‘
تاہم، انھوں نے بتایا کہ ڈیزل، ٹرک، سازوسامان کو نقصانات کا ازالہ کو دیگر روز مرہ کے اخراجات کے لیے معاوضہ انھیں ضرور ملتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ انقلابی شاعری کے بارے میں تو زیادہ علم نہیں ہے، لیکن عمران خان کے قریبی دوست یوسف صلاح الدین نے جو انہیں نظمیں دیں، ان کا ایک ایک لفظ یاد کر لیا۔
’خان صاحب جب خطاب کر رہے ہوتے ہیں، میں ایک کان سے سنتا ہوں۔ دوسری طرف میرا ذہن ان گانوں اور نظموں پر ہوتا ہے۔ جب وہ خطاب کرتے رکتے ہیں، میں اسی وقت مناسب نظم اور گانے کو مکس کرتا ہوں۔ لوگوں میں اس وقت اتنا جذبہ پیدا ہوتا ہے، جھنڈے لہراتے ہیں۔ پھر میں فیڈ آؤٹ ہوتا ہوں اور خان صاحب فیڈ اِن۔‘
ڈی جے بٹ نے اپنے کام کے دوران گرفتاری اور آنسو گیس کا سامنا کیا، اور وہ اصرار کرتے ہیں کہ یہ محض ان کا کام ہے۔ لیکن اسلام آباد کے ریڈ زون میں پی ٹی آئی کے دھرنے کے بعد کیا وہ ایک غیر سیاسی ساؤنڈ انجینیئر رہ پائیں گے؟
No comment