• ریاض سہیل
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام،کراچی

فتوے کی فوٹو کاپی ڈاکٹر محمد شکیل اوج صاحب نے خط کے ساتھ بھیجی تھی، اس کے بارے میں ان کو لکھ دیا گیا تھا کہ یہ سراسر دھوکہ دہی اور جعل سازی پر مبنی ہے: مفتی عثمانی
،تصویر کا کیپشن

فتوے کی فوٹو کاپی ڈاکٹر محمد شکیل اوج صاحب نے خط کے ساتھ بھیجی تھی، اس کے بارے میں ان کو لکھ دیا گیا تھا کہ یہ سراسر دھوکہ دہی اور جعل سازی پر مبنی ہے: مفتی عثمانی

صوبہ سندھ کے شہر کراچی کے نامور مدرسے جامعہ دارالعلوم کراچی کے صدر مفتی رفیع عثمانی نے واضح کیا ہے ڈاکٹر شکیل اوج کے حوالے سے ان کے مدرسے سے منسلک فتویٰ جعلی قرار دیا گیا تھا اور اس سے تحریری طور پر ڈاکٹر شکیل کو آگاہی دی گئی تھی۔

جامعہ کراچی کی ڈین فیکلٹی آف اسلامک لرننگ ڈاکٹر شکیل اوج جمعرات کی صبح فائرنگ میں ہلاک کردیے گئے تھے۔ ایس ایس پی پیر محمد شاہ کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ قبل ان کے خلاف پیغمبر اسلام کی مبینہ توہین کے الزام میں فتویٰ جاری کیا گیا تھا اور اس حوالے سے انہیں دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔

مفتی رفیع عثمانی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کے علم میں یہ بات لائی گئی ہے کہ کسی ٹی وی چینل نے یہ خبر نشر کی ہے کہ ڈاکٹر محمد شکیل اوج کے قتل کا جو واقعہ پیش آیا ہے، اس سلسلے میں کوئی فتویٰ ان کی یا جامعہ دارالعلوم کراچی کی جانب سے جاری کیا گیا تھا، جس میں ڈاکٹر محمد شکیل اوج کو واجب القتل قرار دیا گیا تھا، اس الزام کی وہ تردید کرتے ہیں۔

’آج سے دو سال پہلے خود ڈاکٹر محمد شکیل اوج کا ایک خط آیا تھا، جس میں انہوں نے ہمارے دارالافتاء سے منسوب واجب القتل قرار دیے گئے فتویٰ کی تردید یا تصدیق چاہی تھی۔ مکمل تحقیق کے بعد دارالافتاء کے ناظم مولانا مفتی عبدالروف سکھروی نے جواب لکھ دیا تھا کہ ان کی طرف سے اس طرح کا کوئی فتویٰ جاری نہیں ہوا۔‘

مفتی رفیع نے مزید کہا ہے کہ فتوے کی فوٹو کاپی ڈاکٹر محمد شکیل اوج صاحب نے خط کے ساتھ بھیجی تھی، اس کے بارے میں ان کو لکھ دیا گیا تھا کہ یہ سراسر دھوکہ دہی اور جعل سازی پر مبنی ہے۔

دوسری جانب ڈاکٹر شکیل اوج کے قتل کے شبے میں پولیس نے جامعہ کراچی کے اساتذہ ڈاکٹر عبدالرشید، سمیع زماں اور ڈاکٹر نصیر کو شامل تفتیش کرلیا ہے۔ ایس ایس پی گلشن اقبال پیر محمد شاھ کے مطابق اساتذہ سے تفصیلی پوچھ گچھ کی گئی اور اس شرط میں انھیں جانے کی اجازت دی گئی کہ وہ پولیس سے تعاون کریں گے اور ضرورت پڑنے پر حاضر ہوں گے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ تحقیقات میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے ، جن کے بارے میں آگاہ کرنا قبل از وقت ہوگا۔

واضح رہے کہ تفتیش کاروں کے سامنے ایک یہ رخ بھی سامنے آیا ہے کہ اسلامک سٹڈی شعبے سے کچھ جعلی ڈگریاں بھی جاری کی گئی تھیں، جن کی ڈاکٹر شکیل اوج نے تحقیقات کی تھی اور اس حوالے سے بھی انہیں دھمکایا جارہا تھا۔

No comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *