• آصف فاروقی
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

’وزیراعظم ہی آئی ایس آئی کے سربراہ کو تعینات کرنے کا حق رکھتے ہیں کیونکہ ادارے کے طور پر آئی ایس آئی وزیراعظم ہی کے ماتحت ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس تقرری میں فوجی سربراہ کی رائے بھی شامل ہوتی ہے‘

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشن

’وزیراعظم ہی آئی ایس آئی کے سربراہ کو تعینات کرنے کا حق رکھتے ہیں کیونکہ ادارے کے طور پر آئی ایس آئی وزیراعظم ہی کے ماتحت ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس تقرری میں فوجی سربراہ کی رائے بھی شامل ہوتی ہے‘

پاکستان کے طاقتور ترین انٹیلی جنس ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس یعنی آئی ایس آئی کے سربراہ کی تعیناتی کس کا اختیار ہے اور کس کا حق؟ یہ بات آج بھی بحث طلب ہے۔ قاعدے کے مطابق وزیراعظم اس کو مقرر کرتے ہیں لیکن زمینی حقائق کچھ مختلف کہانی سناتے ہیں۔

آئی ایس آئی کا سربراہ ویسے ہی وزیراعظم کو جواب دہ ہے جیسے بعض دیگر سرکاری اداروں کے سربراہ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بعض معاملات اور بعض مخصوص حالات میں آئی ایس آئی کا سربراہ اپنے باس یعنی وزیراعظم سے زیادہ اختیارات استعمال کر سکتا ہے۔

اس کے باوجود ایک طویل عرصہ فوجی اور سویلین عہدوں پر کام کرنے والے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود سمجھتے ہیں کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کی تعیناتی وزیراعظم ہی کا استحقاق ہے۔

’وزیراعظم ہی آئی ایس آئی کے سربراہ کو تعینات کرنے کا حق رکھتے ہیں کیونکہ ادارے کے طور پر آئی ایس آئی وزیراعظم ہی کے ماتحت ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس تقرری میں فوجی سربراہ کی رائے بھی شامل ہوتی ہے۔‘

یہ معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں ہے۔

فوج کے جس افسر کو آئی ایس آئی میں تعینات کیا جاتا ہے، وہ کسی بھی دوسرے فوجی کی طرح بّری فوج کے سربراہ کی زیرِ کمان ہوتا ہے۔ اس لیے کسی بھی دوسرے سویلین ادارے کی طرح، آئی ایس آئی میں تعیناتی سے قبل فوجی سربراہ کی مرضی ضروری ہوتی ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل طلعت مسعود فوجی سربراہ کی رائے کو ایک اور وجہ سے بھی اہم سمجھتے ہیں۔ اور وہ یہ کہ آئی ایس آئی کے سربراہ جن تین نائبین کے ذریعے ادارے چلاتے ہیں وہ سب فوجی جنرلز ہوتے ہیں اور بّری فوج کے سربراہ ان کا براہِ راست تقرر کرنے کے مجاز ہوتے ہیں۔

’آئی ایس آئی اپنے کمانڈ سٹرکچر کی حد تک فوجی ادارے کی طرح ہوتا ہے۔ اس میں بہت سے سویلین افراد بھی ہوتے ہیں لیکن کلیدی عہدوں پر فوجی افسران ہی تعینات کیے جاتے ہیں۔‘

یہ تو ہوا اصول کا معاملہ۔ اصل میں کیا ہوتا ہے؟

بعض مبصرین سمجھتے ہیں کہ پاکستانی سول حکومت کے دور میں بھی کم ہی ایسا ہوا ہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کی تعیناتی میں وزیر اعظم نے من مانی کی ہو۔ یعنی بّری فوج کے سربراہ کی مرضی کے خلاف کسی فوجی افسر کو آئی ایس آئی کا سربراہ تعینات کر دیا ہو۔ دفاعی امور کے تجزیہ کار زاہد حسین ایسے تین واقعات کا ذکر کرتے ہیں۔

’نواز شریف نے پہلے دورِ حکومت میں لیفٹیننٹ جنرل جاوید ناصر اور دوسرے دور میں لیفٹینٹ جنرل ضیا الدین بٹ اس وقت کے فوجی سربراہان کی مرضی کے خلاف تعینات کیے تھے۔ اسی طرح بےنظیر بھٹو نے بھی اپنے پہلے دورِ حکومت میں جنرل (ریٹائرڈ) کلو کو آئی ایس آئی کا سربراہ لگایا تھا۔ کسی ریٹائرڈ جنرل کو آئی ایس آئی کا سربراہ بنانے کا یہ پہلا واقعہ تھا جس کا ظاہر ہے فوج میں مثبت رد عمل نہیں ہوا تھا۔‘

آئی ایس آئی کی تعیناتی بھی اب پاکستان میں بعض دیگر حساس دفاعی معاملات کا حصہ بن چکی ہے جن پر فوجی اور سول قیادت میں اتفاق رائے ضروری قرار دیا جاتا ہے۔ اس لیے اس تعیناتی کو غیر متنازع بنانے کے لیے یہ طریقہ رائج کیا گیا ہے کہ بّری فوج کے سربراہ چند افسران کی فہرست وزیراعظم کو ان کی خواہش پر ارسال کرتے ہیں۔ وزیراعظم گو کہ پابند نہیں ہوتا کہ انھی میں سے کسی ایک افسر کو آئی ایس آئی کے سربراہ کے طور پر چنے، لیکن عمومی طور پر ہوتا یہی ہے کہ قرعۂ فال اسی فہرست میں شامل کسی افسر کے نام نکلتا ہے۔

ان معاملات سے باخبر دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفیٰ کہتے ہیں کہ آئی ایس آئی سربراہ کسی ایک فریق نہیں بلکہ ریاست کے ادارے کا رکن ہوتا ہے، اس پر سیاست سے پرہیز ہی بہتر ہے۔

’ہم نے پتہ نہیں کیوں یہ سمجھنا شروع کر دیا ہے فلاں میرا بندہ ہے اور فلاں اس کا بندہ ہے۔ اس کو پولیس میں لگا دو، اسے آئی ایس آئی میں۔ اگر ہمیں اپنے قومی اداروں کی تعمیر کرنی ہے تو ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہو گا۔‘

آئی ایس آئی ملک کا طاقتور ترین انٹیلی جنس ادارہ ہے۔ اس کے اختیارات اور مالی وسائل کتنے ہیں، اس کا بالکل درست اندازہ تو اس کے سربراہ کے علاوہ شاید ہی کسی اور شخصیت کو ہو۔ ایسے میں بعض مبصرین کی نظر میں یہ بحث کچھ عرصے بعد بےمعنی ہو جاتی ہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کو کس نے منتخب کیا تھا، فوجی سربراہ یا وزیراعظم نے۔ کیونکہ بالآخر اپنی بیشتر پالیسیاں بنانے میں یہ ادارہ خودمختار سمجھا جاتا ہے۔

No comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *