- وسعت اللہ خان
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
2003 کی جنگِ عراق کو اکیسویں صدی کی پہلی سیمی پرائیویٹ جنگ کہا جا سکتا ہے
گیا وہ زمانہ جب جنگیں آمنے سامنے ہوتی تھیں۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دعوتِ مبارزت دی جاتی تھی۔ کون فاتح ہے کون مفتوح، سب دنیا کو پتہ چل جاتا تھا۔
اب جنگ ٹھیکے پر لڑی جاتی ہے ، پرائیوٹائز ہوگئی ہے، ریموٹ کنٹرولڈ ہوگئی ہے۔ اب باقاعدہ تنخواہ دار فوج یا تو کلیدی آپریشن کرتی ہے یا پھر نگرانی کرتی ہے کہ ٹھیکے دار کام ٹھیک سے کر رہا ہے کہ نہیں، لیبر ڈنڈی تو نہیں مار رہی وغیرہ وغیرہ۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد کی 45 سالہ سرد جنگ بلاواسطہ اور ’پراکسی‘ تھی لیکن خود براہِ راست جنگ کرنا اور اس جنگ میں ٹھیکے دار یا ’پراکسی‘ کو بھی لے کے چلنا نسبتاً نیا رجحان ہے۔ اس اعتبار سے 2003 کی جنگِ عراق کو اکیسویں صدی کی پہلی سیمی پرائیویٹ جنگ کہا جا سکتا ہے جس میں ابتدائی قبضے کے بعد باقاعدہ امریکی فوج کو چھوٹے چھوٹے کاموں میں الجھانے کے بجائے صرف انتہائی حساس مہمات میں استعمال کیا گیا۔
شخصیات، تنصیبات و عمارات کا تحفظ ہو کہ جیلوں کا انتظام کہ فوجی رسد کی نقل و حمل کہ باغیوں سے نمٹنے کا کام کہ قیدیوں سے تفتیش، سب ٹھیکے پر آ گیا۔ جبکہ صوبہ الانبار میں شدت پسندوں سے نمٹنے کا کام مقامی قبائل کو بطور پراکسی سونپا گیا اور یہ حکمتِ عملی خاصی حد تک کامیاب رہی۔
یہ بات تو اب گامے قصائی کو بھی پتہ چل چکی ہے کہ نائن الیون کے بعد سی آئی اے نے مشتبہ القاعدہ حامیوں کی تفتیش مختلف اتحادی ممالک کے ماہرینِ اذیت کو ٹھیکے پر دے کر خود کو زیادہ اہم کاموں کے لیے وقف کر رکھا ہے۔
یوکرین میں باقاعدہ روسی فوج نہیں لڑ رہی کیونکہ یہ کھلی جارحیت کے زمرے میں آجائے گا جس کی اپنی قانونی پیچیدگیاں اور بین الاقوامی مشکلات ہیں۔ لہٰذا بہترین حل یہ ہے کہ مقامی روسی نژاد یوکرینی ملیشیاؤں کو مکمل مدد، تربیت اور رہنمائی دی جائے تاکہ مطلوبہ اہداف ننگی جارحیت کا سٹکر لگوائے بغیر حاصل ہو سکیں۔
روس نے یہ ترکیب غالباً افغان تجربے سے سیکھی جہاں 80 کی دہائی میں سوویت فوجیں اترنے کے بعد امریکہ، پاکستان، ایران اور خلیجی ممالک نے پوری لڑائی پراکسی تنظیموں کی ڈھال کے پیچھے سے لڑی اور یہ تجربہ اتنا کامیاب ہوگیا کہ پھر اس ماڈل کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں آزمایا گیا۔
اس دوران ایران اور سعودی عرب نے پاکستان کو فرقہ وارانہ پراکسی وار کا میدان بنانے کا تجربہ کیا۔
لیکن اب اس نجی ٹھیکیداری اور پراکسی ماڈل کو خانہ جنگیوں میں استعمال کرنے کا تجربہ ہو رہا ہے۔ جیسے بھارت میں نکسل تحریک کے خلاف بالخصوص سرکاری حمایت یافتہ مقامی تنظیمیں کھڑی کی جاتی ہیں مگر کشمیر میں یہ بھارتی تجربہ کامیاب نہیں ہو پایا۔
پاکستان کی جانب سے پراکسی ماڈل سنہ 48 کی جنگِ کشمیر، سنہ 65 کے آپریشن جبرالٹر اور سنہ 99 کی کارگل لڑائی میں استعمال تو ہوا لیکن اسے صرف پراکسی تک محدود نہ رکھا جا سکا۔ اگرچہ مشرقی پاکستان کی خانہ جنگی میں ڈھاکہ کی فوجی ہائی کمان نے نجی ملیشیاؤں کو علیحدگی پسندوں کے خلاف استعمال تو کیا لیکن اس میں خاصی خامیاں رہ گئیں یوں ایک بنگالی مچھیرے کو بھی فوراً پتہ چل گیا کہ یہ تنظیمیں نظریاتی نہیں بلکہ پراکسی ہیں۔
چنانچہ ان کچے پکے تجربات کی روشنی میں بلوچستان میں جاری حالیہ شورش کچلنے کے لیے پراکسی جنگ کا تجربہ نسبتاً زیادہ صفائی سے کیا گیا ۔ طفیلی تنظیموں نے نظریاتی چادریں اوڑھ کے کام ہاتھ میں لیا تاکہ یہ تاثر ابھر سکے کہ یہ تنظیمیں اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول میں نہیں بلکہ انتظامی و عسکری اداروں کے لیے بذاتِ خود ایک اضافی دردِ سر ہیں۔
بلوچ اگر بلوچ سے لڑ رہا ہے یا شیعہ سنی مار کاٹ ہو رہی ہے یا کوئی کسی کے بندے اٹھا رہا ہے یا اجتماعی قبریں مل رہی ہیں یا صحافی ٹارگٹ ہو رہے ہیں تو اس سے بھلا اسٹیبلشمنٹ کا کیا لینا دینا؟ یہ سب تو ان بیرونی ایجنٹوں کی کارستانی ہے جو پاکستان کو مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے۔
تو کیا سیاسی جنگ کے اہداف حاصل کرنے کے لیے بھی فل ٹائم یا پارٹ ٹائم ٹھیکے دینے کا تجربہ ہورہا ہے؟ اس بابت پچھلے تین چار ماہ کے دوران بہت سے صحافی، اینکروں اور از قسم ِ جاوید ہاشمی سیاست داں اس قدر آنکڑے بازی کر چکے ہیں کہ مزید کچھ کہنا پھٹا ڈھول بجانا ہے۔
کئی الزامیے تو یہ تک کہتے ہیں کہ نجی ٹی وی چینلوں کو بھی نجی پراکسیوں کے ذریعے دامے، درمے، قدمے، دھمکے، کیبلے، پتھرے لگام دینے کا تجربہ نہ صرف کامیاب ثابت ہوا ہے بلکہ اسے مزید جدید کیا جا رہا ہے۔ یہ الزامیے دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ ، تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو ٹائپ کے گھسے پٹے اشعار بھی بطور مثال سناتے رہتے ہیں۔ مگر میری ناقص رائے میں تو یہ سب نری بکواس ہے۔
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں جو لوگوں نے پھیلائی ہیں تم انشا جی کا نام نہ لو، کیا انشا جی سودائی ہیں
No comment