Security cctv camera security system vector illustration


دکان میں لوگوں کا ہجوم تھا۔ کچھ لوگ سامان لینے کے لئے کھڑے تھے جب کہ کچھ نے سامان خرید لیا تھا اور اب جلدی جلدی بل ادا کر کے جانے کے چکر میں تھے۔ کچھ لوگ فون پر گھر سے ہدایات لے رہے تھے کہ کون کون سا سودا لانا ہے؟ بچے اپنی ماؤں سے چمٹے ہوئے تھے تاکہ اپنی من پسند چیزیں خرید سکیں۔ کچھ نوجوان اپنی محبوب ہستیوں کے لیے تحائف خرید رہے تھے۔ اس سارے ماحول کا نظارہ کرتے ہوئے اچانک میری نظر دکان میں لگے کیمروں پر پڑی۔ سامنے دیوار پر لگے ایک بورڈ پر لکھا تھا:
“محتاط رہیں! کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے۔”
اس جملہ سے تعجب سا ہوا۔ کاؤنٹر پر بیٹھے شخص سے دریافت کیا کہ جب کیمرے لگا دیے تو اس جملے کے لکھنے کی کیا ضرورت تھی؟
کاؤنٹر پر بیٹھا شخص کہنے لگا “کیمرا کسی ایک فرد کو نظر آتا ہے لیکن لکھا ہوا یہ جملہ آنے والے ہر شخص کو دکھائی دیتا ہے۔”
اس شخص سے دریافت کرنے پر کہا آپ نے اس جملے کو ہی خاص کیوں کیا؟ بولا “اور کیا لکھتے؟” میں نے کہا “آپ یہ جملہ کہہ دیتے کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔اس جملے کے سنتے ہی اس پر کپکپی سی طاری ہوگئی۔

ایک آدمی صرف اتنا پڑھنے سے محتاط ہوجاتا ہے(کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے) لیکن ایک ذات ایسی ہے جو ہر وقت اس روئے زمین پر جتنی بھی مخلوق ہے اس کے انگ انگ ،چھوٹی بڑی حرکت سے واقف ہے۔
وہ آنکھ کی خیانت کو سینوں میں پوشیدہ باتوں کو خوب جانتی ہے۔ اگر ہم دکانوں میں یہ لکھوا دیں کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ تو الگ سے کیمروں پر خرچہ کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔

حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالحی عارفی رحمہ اللہ نے اپنے کلینک میں تین جملے لکھوا رکھے تھے
اللہ دیکھ رہا ہے۔
اللہ ہمارے دلوں میں آنے والے خیالات سے واقف ہے۔
اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

دیکھیے! ہمارے اکابر کتنے احسن انداز میں تربیت کیا کرتے تھے؟ کاروبار کے ساتھ ساتھ لوگوں کی اصلاح کا بھی اہتمام کیا کرتے تھے۔ اگر ہم اپنے تصورات،خیالات میں یہ بسا لیں کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے ۔ہم بڑے گناہوں کے ارتکاب سے بچ سکتے ہیں۔ ہم گناہ اور نافرمانی کرتے ہوئے لوگوں سے ڈرتے ہیں، ہمیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا؟ لیکن رب کائنات سے نہیں ڈرتے۔ گناہ کرتے وقت چھوٹے بچے سے بھی شرم و حیا کرتے ہیں مگر خالق و مالک کی نافرمانی اور بغاوت کرتے ہوئے ہمیں شرمندگی و ندامت تک کا احساس نہیں ہوتا۔

“اللہ دیکھ رہا ہے” یقیناً یہی تقوی کہلاتا ہے جسے اختیار کرنے کا رب ذوالجلال نے قرآن مجید میں اور سرور دو عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مختلف مقامات پر حکم دیا ہے۔
تقویٰ ایسی نعمت ہے جو انسان کو روزے میں سخت گرمی،شدت پیاس کی حالت میں بھی پانی کی طرف ہاتھ بڑھانے سے روکے رکھتا ہے،اسی کی برکت سے حاکم اپنی رعایا کا خیال کرنے لگتا ہے۔ عدالتوں میں جلد باعزت طریقے سے حقدار کے حق میں فیصلے سن ادیے جاتے ہیں۔ ظالم، ظلم سے باز آجاتا ہے۔ نوجوان بڑوں کی عزت کرنے لگتے ہیں۔ یہ سب اسی وقت ہوگا جب ہر وقت دل میں خیال ہو کہ ہمارا خالق اللہ دیکھ رہا ہے۔

ایک قصہ ابن الجوزي رحمه الله نے اپنی کتاب صفة الصفوة میں سید نا نافع رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا ہےآ

“سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایک دن مدینہ کے قریب اپنے ساتھیوں کے ساتھ صحرا میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔
وہاں سے ایک چرواہے کا گزر ہو، ا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اُسے کھانے کی دعوت دی۔
چرواہے نے کہا میں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔”
سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حیران ہو کر کہا کہ اتنے شدت کی گرمی ہے اور تو نے روزہ رکھا ہوا ہے اور تم بکریاں بھی چرا رہے ہو؟
پھر سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اُ س کی دیانتداری اور تقویٰ کا امتحان لینا چاہا
اور کہا :کیا تم ان بکریوں میں سے ایک بکری ہمیں بیچ سکتے ہو؟ ہم تمہیں اس کی قیمت بھی دیں گے اور کچھ گوشت بھی دیں گے جس سے تم اپنا رزوہ بھی افطار کر سکتے ہو۔
چرواہا بولا : یہ میری بکریاں نہیں ہیں یہ میرے مالک کی بکریاں ہیں۔
سید نا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمانے لگے: اپنے مالک سے کہنا کہ
ایک بکری کو بھیڑیا کھا گیا
چرواہا غصے میں اپنی انگلی آسمان کی طرف کر کے یہ کہتے ہوئے چل دیا : پھر اللہ کہاں ہے؟
ابن عمر رضی اللہ عنہما بار بار چرواہے کی بات کو دھراتےجا رہے تھے کہ ؛ اللہ کہاں ہے؟ اللہ کہاں ہے؟ اور روتے جارہے تھے۔ جب سید نا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مدینہ پہنچے، چرواہے کے مالک کو ملے
اُ س سے بکریاں اور چرواہا خریدا اور اُسے آزاد کر دیا اور بکریاں بھی اُسے دے دیں
اور اُسے کہا کہ تمہارے ایک جملے نے تجھے آزاد کروا دیا (اللہ کہاں ہے) اللہ سے دعا ہے کہ تجھے قیامت کے دن دوزخ کی آگ سے بھی آزاد کرے۔
(لسلسلة الصحيحة – لصفحة أو الرقم : 7/469)

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے دلوں میں تقویٰ اور ڈر پیدا کریں تاکہ ہم لوگوں کے ڈر سے نہیں! بلکہ لوگوں کےرب کے ڈر سے گناہ اور نافرمانیاں چھوڑ دیں۔
بقولِ علامہ محمد اقبال رح
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان

No comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *